وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً    (سوره  اسرا        آیت 22)

اسلام کی نگاہ میں والدین کی اطاعت

 

لفظ اطاعت کا لغوی معنی

لفظ اطاعت "طوع" سے ہے اور طوع ؛ کرہ کی ضد  ہے کہ جس کا معنی حکم ماننا اور  اختیار کے ساتھ کسی کے سامنے   سرتسلیم خم کرنا  ہے۔ [1]  کلمہ والدین، اسم فاعل  اور تثنیہ کا صیغہ ہے کہ جس سے مراد ماں باپ ہیں۔ [2]

دینی اصطلاح  میں والدین کی اطاعت

دینی تعلیمات کے  مطابق،  والدین کی اطاعت سےمراد،  اللہ تعالی کے اوامر کے ترک کرنے  اور اللہ تعالی کی حرام کی گئی  چیزوں کے انجام دینے کے علاوہ   زندگی کے تمام مسائل میں ماں باپ کا حکم ماننا ہے۔ اطاعت والدین کا متضاد عقوق والدین یعنی والدین کے حکم کی نافرمانی۔

قرآنی آیات کی روشنی میں والدین کی اطاعت

والدین کے ساتھ نیکی اور اچھائی کےساتھ پیش آنے کا واضح ترین مصداق، ماں باپ کی اطاعت کرنا ہے۔ ہر فرزند کا وظیفہ بنتا  ہے کہ  پروردگاکی  رضا  کے حصول کے لئے والدین کی اطاعت کرے اور ان کی نافرمانی ، اللہ تعالی کے ناراض ہونے کا  موجب بنتی ہے۔ ماں باپ، ہر فرد  کی زندگی میں دلسوز ترین اور خیر خواہ ترین افرادہیں کہ جو اس کی بھلائی ، ترقی اور سربلندی کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس اولاد کو چاہیے کہ وہ  اللہ کی رضا  حصول  کے لئے ان کی فرمانبرداری کریں تاکہ اللہ تعالی اور  والدین کی خوشنودی  کے اسباب فراہم ہو سکیں۔  قرآن مجید میں اللہ تعالی کی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین  کی اطاعت اور تکریم کو بیان کیا گیا ہے، یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ والدین کا حق بزرگترین  حقوق میں سے ہے  اور ہر چیز پر مقدم ہے۔

اللہ تعالی، والدین  کی اطاعت کے بارے میں فرماتا ہے:   وَ وَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ،۱۴ وَ إِنْ جَاهَدَاکَ عَلَى أَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ أَنَابَ إِلَیَّ ثُمَّ إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛15 [3] اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔ اور اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کر اور اس شخص کے راستہ کی پیروی کر جو (ہر معاملہ میں) میری طرف رجوع کرے پھر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے۔ تو (اس وقت) میں تمہیں بتاؤں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

صاحب مجمع البیان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: وَ وَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ؛ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا ۔ یہاں پر چونکہ خداتعالی نے اپنی نعمتوں کے شکر بجا لانے  کا امر فرمایا ہے، اس لئے اشارہ کے ساتھ اس بات کا  تذکر دیتا ہے کہ  ہر منعم کا شکر واجب  اور لازم ہے ، اسی وجہ سے ماں باپ( اپنے فرزند  پراحسان کرتے ہیں) والدین کا ذکر کیا ہے  اور ہمارے پر واجب کیا ہے کہ والدین کی اطاعت کرتے ہوۓ ان کا شکریہ ادا کریں اور ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ سلوک کریں۔ اللہ تعالی نے اپنی شکر گذاری کے بعد والدین کی شکر گزاری کا شکر اس لئے کیا ہے کہ چونکہ خداوند عالم،  انسان کا خالق ہے اور والدین اس کی خلقت  اور حفاظت کا  وسیلہ ہیں۔ [4]

روایات معصومین (ع) کی روشنی میں والدین کی اطاعت

آئمه معصومین(علیهم السلام) نے بہت سی روایات میں مسلمانوں کو  اپنے والدین کی اطاعت کی سفارش کی ہے کہ ان میں سے  چند  احادیث  بہ طور مثال ذکر کرتے ہیں:

۱ـ رسول خدا ( صلّی الله علیه و آله ) نے فرمایا: العبدُ المطیعُ لوالدیهِ و لرّبه فی أعلی علّیین؛ وہ شخص کہ  جو اپنے خدا اور والدین کا مطیع ہو گا ، (قیامت کے دن) اس کا مقام اعلی علیین میں ہوگا۔ [5]

۲ـ امام علی ( علیه السّلام ) نے  فر مایا:

حقّ الوالِدِ أن یُطیعَهُ فی کلّ شئٍ الاّ فی معصیهِ اللهِ سبحانَهُ؛اولاد پر والدین کا حق ہے یہ کہ معصیت خدا کے علاوہ تمام موارد میں ان کی اطاعت کریں۔ [6]

۴ـ عَنِ النَّبِیِّ(ص) أَنَّهُ قَالَ: ثَلَاثَهٌ لَا یَحْجُبُونَ عَنِ النَّارِ الْعَاقُّ لِوَالِدَیْهِ وَ الْمُدْمِنُ لِلْخَمْرِ وَ الْمَانُّ بِعَطَائِهِ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ قَالَ یَأْمُرَانِ فَلَا یُطِیعُهُمَا؛ [7]

ترجمہ: رسول خدا (ص) نے فرمایا: تین قسم کے لوگ جہنم سے نہیں بچ سکتے 1۔ والدین کے عاق 2۔ دائمی شراب خور 3۔ صدقہ دے کر جتلانے والا، کہا گیا : یارسول اللہ! عاق والدین سے کیا مراد ہے؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: والدین اپنے فرزندکو کسی کام کرنے کا حکم دیں اور وہ ان کی اطاعت نہ کرے۔

۵ ـ قِیلَ یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُ الْوَالِدِ قَالَ أَنْ تُطِیعَهُ مَا عَاشَ فَقِیلَ وَ مَا حَقُّ الْوَالِدَهِ فَقَالَ هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لَوْ أَنَّهُ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَ قَطْرِ الْمَطَرِ أَیَّامَ الدُّنْیَا قَامَ بَیْنَ یَدَیْهَا مَا عَدَلَ ذَلِکَ یَوْمَ حَمَلَتْهُ فِی بَطْنِهَا؛

پیامبر اکرم (ص)سے کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ! باپ کا کیا حق ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا:جب تک تم زندہ ہو اس کی اطاعت کرو۔ پھر سؤال کیا: ماں کا کیا حق ہے؟حضرت (ص) نے فرمایا: ھیہات، ھیہات ؛ بہت دور ہے ، بہت دور ہے(کہ اس کا کوئی حق ادا کرے! پھر فرمایا: اگر کسی شخص کی عمر بیابان  اور ریگستان کے ذروں اور  بارش کے قطروں  کے برابر ہو اور وہ اپنی ماں کی خدمت کرتا رہے  تب بھی یہ تمام  خدمت،  حمل کے دوران ایک دن کی اٹھائی گئی تکلیف کے برابر  نہیں ہو سکتی۔[8]

صحیفہ سجادیہ میں اطاعت والدین

امام سجاد (ع) نے صحیفہ سجادیہ کی 24ویں دعا کی ابتدا  میں درود وسلام کے بعد اپنے ماں باپ  کے حق میں دلنشین اور بہت پیارے انداز میں  اللہ تعالی سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں ان کا مطیع اور فرمانبردار بنادے:  : أللَّهُمَّ اجْعَلْنی أهَابَهُما هَیبَهَ السُّلْطانِ العَسُوفِ وَ أبوَّهُمَا بِوَّ الأمَّ الرَّؤوفِ، وَاجعَلْ طَاعَتِی لِوالدَی وَ بِرّی بِهِما أقرَّلعَینی مِنْ وَقدهِ الوَسنانِ، وَأثْلَجَ لِصَدری مِنْ شَوبَهٍ الظَّمْآنِ حَتَّی أوثِرَ عَلَی هَوای هَواهُمَا، وَأقدَّمَ عَلَی رضای رَضاهُمَا، وَأسْتَکثَرَ برَّبَهُمَا بِی وَ إنْ قَلَّ وَأسْتَقِلَّ بِرّی بِهِما وَ إنْ کثُرَ؛

خدایا! مجھے توفیق دے کہ میں اپنے ماں باپ سے اس طرح ڈروں جیسے کسی جابر سلطان سے ڈرا جاتا ہے اور ان کے ساتھ اس طرح مہربانی کروں جس طرح ایک مہر بان ماں اپنی اولاد کے ساتھ مہربانی کرتی ہے۔ اور پھر میری اس اطاعت کو اور میرے اس نیک برتاؤ کو میری آنکھوں کے لئے اس سے زیادہ خوشگوار بنا دے جتنا خواب آلود آنکھوں میں نیند کا خمار خوشگوار ہوتا ہے اور اس سے زیادہ باعث س بنا دے جتنا  پیاسے کے لئے پانی کا ایک گھونٹ باعث س بنتا ہے تاکہ میں اپنی خواہش کو ان کی خواہش پر مقدم کروں اور ان کی رضا  کو اپنی رضا پر ترجیح دوں۔ ان کے مجھ پر کیے گئے احسانات کو زیادہ سمجھوں، چاہے وہ قلیل ہی کیوں نہ ہوں  اور اپنی خدمات کو قلیل تصور کروں چاہے وہ کثیر ہی کیوں نہ ہوں۔ [9]

حضرت امام زین العابدین(علیه السلام)ایک دعا میں خداوند متعال سے درخواست کرتے  ہیں کہ ان کی اولاد کو اپنے والدین کا مطیع قرار دے دے اور فرمایا: وَ اجْعَلْهُمْ لِی مُحِبِّینَ، وَ عَلَیَّ حَدِبِینَ مُقْبِلِینَ مُسْتَقِیمِینَ لِی، مُطِیعِینَ ، غَیْرَ عَاصِینَ وَ لَا عَاقِّینَ وَ لَا مُخَالِفِینَ وَ لَا خَاطِئِین ؛ ترجمہ: خدایا! انہیں میرا  چاہنے والا اور میرے حال پر مہربانی کرنے والا اور میری طرف توجہ کرنے والا اور میرے حق میں سیدھا اور اطاعت گذار بنا دے ، جہاں نہ معصیت کریں نہ عاق ہوں ، نہ مخالفت کریں اور غلطی کریں۔[10]

اسلام میں اطاعت والدین کی حدود

قرآن کریم، والدین کی اطاعت کی حدو د بیان کرتے ہوۓ فرماتا ہے: وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ؛[11] اور ہم نے انسان کو وصیت کی ہے یعنی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور (یہ بھی کہ) اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو کسی ایسی چیز کو میرا شریک بنا جس کا تجھے کوئی علم نہیں ہے تو پھر ان کی اطاعت نہ کر تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے تو میں تمہیں بتاؤں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔

اگر تمھارے والدین تمھیں توحید کو ترک کرنے اور جہالت کی طرف  لے  جانا چاہیں  تو اس صورت میں ان کی نافرمانی ضروری ہے۔  کبھی کبھاروالدین کی طرف سے اس طرح کی تلاش اور دعوت  دلسوزی اور محبت  پر مبنی ہوتی ہے، اس لئے اس طرح کہتے ہیں: میرے بیٹے!اگر ہم فلاں طاغوت کی اطاعت نہ کریں تو اس صورت میں ہمارا کھانا پینا  اور رہن سہن خطرہ میں پڑ جاۓ گا، ہمارا مال و متاع اور عزت و آبرو اس وقت اس بات سے وابستہ ہے کہ ہم ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوۓ اطاعت کریں اور یہ چیزیں بعض اوقات اولاد کی تحقیر کی صورت میں سامنے آتی  ہیں، مثلا ، والدین کہتے ہیں کہ تم اس بات کو نہیں سمجھتے، جو تم سے بڑی اور محترم شخصیات ہیں،  اسی طرح سے  ان کی   اطاعت اور  خدمت کرتے چلی  آ‏ئی ہیں ، اس طرح ان کی زندگی ہر خطرہ سے محفوظ رہی ہے۔  یا یہ کہا جاتا ہے ،یہ ہمارے خاندان اور قوم کا مسئلہ ہے کہ فلاں را ستہ کو اپناتے ہوۓ فلاں کام انجام دیں۔

شہیددستغیب اس بارے میں لکھتے ہیں:

والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرماتِ الٰہی کے مقابل میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے ہیں۔ مثلاً والدین،  اگر اولاد کو شراب پینے کا حکم دیں یا اُس کو واجب نماز روزے سے روکیں تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت ممنوع ہے۔ چنانچہ سورہٴ لقمان کی پندرھویں آیت میں اس بات کی تصریح فرمائی ہے:

وَاِنْ جَاھَدَکَ عَلٰے اَنْ یُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُعِطھُمَا۔ "اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔"

یہ حدیث شریف اس آیت کریمہ کی تائید کرتی ہے:  لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ  "مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔"

ان دو صورتوں کے علاوہ تمام مستحبات و مکروہات اور مباحات بلکہ واجب کفائی انجام دینے کی صورت میں والدین کی رضایت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اگر یہ عمل والدین کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا تکلیف کا موجب ہوں تو ان کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔  اسی مخالفت کو عاق کہتے ہیں۔ مثلاً بیٹا غیر واجب سفرپر جانا چاہتا ہو لیکن والدین جانی و مالی ضرر کے اندیشے سے یا اس کے ساتھ شدید محبت کی بنا پر جدائی کو برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے سفر پر جانے سے منع کریں اور بیٹا منع کرنے کے باوجود سفر پر جائے تو اس صورت میں معصیت کا سفر ہوگا اور حرام ہوگا۔ ایسے سفر میں نماز و روزہ قضا نہیں ہو گا۔

مختصر یہ کہ ہر وہ مخالفت جو والدین کی ناراضگی ، رنجش اور اذیت کا سبب بن جائے، حرام ہے۔مگر یہ کہ ان کی اطاعت اولاد کے لیے ناقابل برداشت ہو یا دینی اور دنیوی ضرر کا موجب ہو۔ مثلاً والدین اولاد کو شادی کرنے سے منع کریں، جبکہ شادی کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہو یا عسر و حرج در پیش ہوتا ہو یا یہ کہ والدین بیٹے سے کہیں کہ بیوی کو طلاق دے دو جبکہ یہ حکم دونوں میاں بیوی کے لیے نقصان کا باعث ہو۔ ایسی صورت میں والدین کی اطاعت واجب نہیں لیکن ایسے امور جن میں والدین مخالفت کے باوجود ناراض نہ ہوتے ہوں اور ان کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی ہو، ایسے موقعوں پر مخالفت کا حرام ہونا یا اطاعت کا واجب ہونا میرے علم میں نہیں ہے۔ بہتر ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ تا حد امکان ان اوامر کو بجا لائیں اور مخالفت سے پرہیز کریں۔ خصوصاً جبکہ والدین اولاد کی مصلحت ملحوظ خاطر رکھ کر امر و نہی کریں اور اس میں ان کی ذاتی غرض نہ ہو۔  ۔ [12]

مناقب میں  روایت ہے کہ ایک دن امام حسین (ع) کے پاس سے عبد الرحمن بن عمرو بن عاص گذرا،  تو اس نے  لوگوں سے کہا:جو بھی اس شخص کو دیکھنا چاہے کہ جو میرے نزدیک تمام اہل آسمان اور اہل زمین سے محبوب ترین ہے،  وہ اس شخص کو دیکھے، اگرچہ میں جنگ صفین کے بعد  سے اس کے ساتھ ہمکلام نہیں ہوا ۔ابو سعید خدری اسے لے کر  آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام حسین (ع) نے اسے فرمایا:" آیا تو جانتا تھا کہ میں اہل آسمان کے نزدیک محبوب ترین ہوں؟!اس کے باوجود بھی تم نے جنگ صفین میں میرے باپ پر تلوار کھینچی؟! خدا کی قسم! میرا باپ میرے سے بہتر تھا، عبد الرحمان نے عذر خواہی کی اور کہا: آخر کیا کرتا چونکہ رسول خدا (ص)نے مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے باپ کی  اطاعت کرنا۔ حضرت  نے فرمایا:" آیا تم نے فرمان خدا نہیں سنا ہے کہ فرمایا:" وَ إِنْ جَاهَدَاکَ عَلَى أَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا"[13]،"اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔"  اس کے علاوہ رسول خدا(ص)  کا فرمان نہیں سنا:" (ماں باپ یا جس کسی کی اطاعت تم پر واجب ہے  وہ)  اطاعت  پسندیدہ ہونی چاہیے اور وہ اطاعت کہ جس میں نافرمانی ہو وہ  پسندیدہ نہیں ہے، پھر امام حسین (ع) نے اضافہ فرمایا: آیا یہ  فرمان نہیں سنا :  لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِق "مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔ ۔[14]

والدین کی امر و نہی میں اختلاف کا حل

جب کبھی والدین کے احکام میں تضاد واقع ہو جائے مثلاً باپ کہے کہ فلاں کام کرو، ماں کہے کہ وہ کام نہ کرو تو ایسی صورت میں کوشش کی جائے کہ دونوں کو راضی رکھا جا سکے اور اگر کوئی دونوں کو راضی نہ کر سکے تو ماں کی خوشنودی کو ترجیح دے۔ چونکہ ابتدائے خلقت میں باپ سے پہلے ماں کے حقوق انسان پر عائد ہوتے ہیں کیونکہ ماں زیادہ تکالیف سہتی ہے۔ خصوصاً ایّامِ حمل، وضعِ حمل اور دودھ پلانے کی زحمات ماں ہی برداشت کرتی ہے۔ ماں اس لیے بھی زیادہ نیکی کا استحقاق رکھتی ہے کہ عورت پیدائشی طور پر مرد کی نسبت نازک مزاج اور احساساتی  ہوئی ہے۔ وہ اولاد کی معمولی سی تکلیف کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے، بیتاب ہو جاتی ہے مامتا اُسے بے قابو کر دیتی ہے۔

اس کے برعکس باپ کی عقل و ہوش مضبوط اور مزاج سنجیدہ ہوتا ہے وہ اولاد کی تکلیف سے کم متاثر ہوتا ہے۔ باپ احساس کر لیتا ہے کہ بیٹا میری مخالفت ذاتی دشمنی کی بنا پر نہیں بلکہ ماں کی خاطر داری کی بنا پر کر رہا ہے۔ اس لیے وہ مخالفت سے ناراض نہیں ہوتا۔[15]

والدین کی اطاعت کے فوائد

والدین کی اطاعت کےبہت سے دنیوی اور اخروی فوائد ہیں کہ جن میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 

1۔ والدین کی طرف محبت بھری نگاہ  کرنا عبادت ہے۔

 رسول خدا صلی الله علیه و آله فرماتے ہیں: نظر الولد الی والدیه حباً لهما عباده۔[16]  بچے کا اپنے والدین کو محبت بھری نگاہ سے دیکھنا عبادت ہے۔

روایات میں ہے کہ چند چیزوں کی طرف نگاہ کرنا، عبادت شمار ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک قرآن مجید ہے کہ جس کی طرف نگاہ کرنا عبادت ہے اور اس کے علاوہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ ایک شخص نے خانہ کعبہ کے پاس حضرت ابوذر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے پوچھا: حضرت علی(علیہ السلام) کے چہرے کی طرف  زیادہ کیوں دیکھتے ہو؟ تو فرمایا:  النّظر الی علی بن أبی طالب عباده، و النّظر الی الوالدین برأفۃ و رحمۃ عباده.حضرت علی(علیہ السلام) کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھنا عبادت ہے؛ اسی طرح والدین کی طرف محبت اور رحمت کی نظر کرنا ، عبادت ہے۔

2۔والدین کے ساتھ نیکی،  اسلام کی راہ میں جہاد ہے۔

پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله نے فرمایا: برّ الوالدین یجزی عن الجهاد.[17]والدین سے نیکی کرنا جہاد سے بھی کفایت کرتا ہے۔ (جہاد  کے برابر ہے)۔

طویل عمر  اور کثرت رزق کا باعث ہے

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

انّه ربّما کان قد بقی من عمر الانسان ثلث سنین ثم انّه یحسن الی والدیه و یصل أرحامه فیؤخّره الله الی ثلثین سنه و انّ منهم من یبقی من عمره ثلاثون سنه ثم انّه یقطع أرحامه أو یعق والدیه فیمحو الله سبحانه الثلاثین و یثبت مکانها ثلاث سنین، و قال رسول الله صلی الله علیه و آله : رأیت فی المنام رجلا قد اتاه ملک الموت لقبض روحه فجاء برّه بوالدیه فمنعه منه.[]

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کی عمر ، تین سال باقی رہ جاتی ہے ؛ لیکن اس کا والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی کرنے  کی وجہ سے  خدا تعالی اس کی عمر کو تیس سال میں تبدیل کر دیتا ہے اور اس کے برعکس، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کی عمر تیس سال باقی رہتی ہوتی ہے ؛ لیکن قطع رحمی اور والدین کو اذیت و آزار دینے کی وجہ سے اس کی یہ تیس سالہ عمر تین سال میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خواب میں دیکھا کہ ملک الموت ، قبض روح کے لئے ایک شخص کے پاس آیا ؛ لیکن والدین کے ساتھ نیکی  نے اس کی زندگی کوبچا لیا۔

7۔ والدین کے ساتھ نیکی، خوشگوار زندگی  کا باعث بنتی ہے۔

معصوم فرماتے ہیں: لذّه العیش فی البرّ بالوالدین[19]:  خوشگوار زندگی کی لذت ، ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے میں مضمر ہے۔

وضاحت: وہ لوگ کہ جو اپنی اجتماعی اور معاشرتی زندگی میں اپنے والدین کے ساتھ شفیق اور مہربان    نہیں  ہوتے   بلکہ اس کے برعکس  غیض و غضب سے پیش آتے ہیں، صرف یہ نہیں کہ آخرت میں عذاب پروردگار کے مستحق قرار پائیں گے بلکہ وہ دنیا کی کسی لذت  اور خوشی سے بھی بہرہ مند نہیں ہوں گے۔ ہم اپنے زمانے میں  اس بات کے شاہد ہیں کہ جو لوگ  اپنے والدین کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ پیش نہیں آتے ، کس طرح  ان کے گھر  تباہ و برباد  ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ زندگی میں مصیبتوں کا شکار رہتے ہیں!  پس جو لوگ اس دنیا میں  پرس اور خوشگوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ، انہیں چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی، محبت اور شفقت کا سلوک کریں، تاکہ   مسرت اور خوشی سے بھرپور  زندگی کی لذت حاصل کر سکیں۔

 

8۔ موت میں آسانی کا باعث ہے

من أحبّ أن یخفّف اللّه عزّ و جّل عنه سکرات الموت فلیکن بوالدیه بارّا؛[20]

جو شخص سکرات موت کی تلخی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے والدین سے نیکی کے ساتھ پیش آۓ۔

10۔ جہنم کی آگ سے سپر ہے

روایت میں آیا ہے :

اسلام کی نگاہ میں والدین کی اطاعت

کی ,کے ,اور ,میں ,اس ,والدین ,کے ساتھ ,کی اطاعت ,ہے کہ ,والدین کی ,والدین کے ,عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ,علیه السلام فرماتے ,بِهِ عِلْمٌ فَلَا ,تقی، مستدرک الوسائل

مشخصات

تبلیغات

آخرین مطالب این وبلاگ

آخرین ارسال ها

برترین جستجو ها

آخرین جستجو ها

اخبار صنعت خودرو السلام علیک یا فاطمة الزهراء سلام الله علیها پارس موبایل مهد سرمایه ماشین جوجه کشی طراحی بازی دانلود نمونه سوالات رتبه بندی فرهنگیان تکنیک های آشپزی پسری در حال شکل گیری! وبلاگ رسمی شرکت بیان